حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
ماں! ہے معراج تُو محبت کی
ہے علامت وقار و عظمت کی
میں نے تیری ہمیشہ خدمت کی
کبھی ٹالا نہیں کہا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
پاک جذبوں کا نام ہے ماں تُو
رفعتوں پر مدام ہے ماں تُو
اُلفتوں کا دوام ہے ماں تُو
ہے سراپا سدا دُعا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
تجھ میں پھُولوں کی سی لطافت ہے
اور سمندر کی جیسی وُسعت ہے
کوہساروں کی طرح رفعت ہے
اور فولاد حوصلہ تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
کون سا دُکھ نہیں سہا تُو نے
دی ہے سب کو مگر دُعا تُو نے
چاہا اس کا بھی ہے بھلا تُو نے
جس نے چاہا سدا بُرا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
میں اگر پڑ گیا کبھی بیمار
ایک پل بھی تجھے نہ آیا قرار
کر دیا اپنا آپ مجھ پر وار
حال دیکھا نہیں گیا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
تیری ممتا کی ہے گھنی چھاؤں
کیونکر اس کا بدل میں لے آؤں
غیر ممکن اسے کہیں پاؤں
چونکہ سایہ ہے بے بہا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
کلیم چغتائی
No comments:
Post a Comment