سنگِ بے حس ہیں یہ، رنگین شرارے تو نہیں
بُت کسی اور کے ہوں گے، یہ ہمارے تو نہیں
اِن سے کچھ کام نکل سکتے ہیں اِس دنیا کے
یہ اکابر مگر اُخریٰ کے سہارے تو نہیں
ہم نفس ہی سے ہے تکمیلِ چمن آرائی
شب کے ساتھی مِرے جگنو ہیں، ستارے تو نہیں
انقلابی! تجھے واسوخت نہ کہنا آیا
یہ تو نعرے ہیں، غزل گو کے اشارے تو نہیں
اِن کو گا سکتے ہو اُستاد، کسی بھی دُھن میں
ہیں یہ غزلیں ہی تو، قرآن کے پارے تو نہیں
اپنے وِجداں کو مِلے بس یہ حواسِ خمسہ
پہلو محسوس ہوئے چند ہی، سارے تو نہیں
حادثے اپنے شب و روز میں سو اور آئے
آج کا نالہ اُسی رنج کے مارے تو نہیں
ساتھ دیوانگی کے بڑھتی گئی عُریانی
کپڑے مجنوں نے کبھی آپ اُتارے تو نہیں
اپنی ہمت کے ہیں قصّے یہ سیاحت نامے
لوحِ محفوظ کے پیوستہ شمارے تو نہیں
ڈُوب کر سمجھے ہیں قُرآں کے اشارے عارف
بحرِ ایماں کے یہ دھارے ہیں، کنارے تو نہیں
کبھی مرحوم بھی ہو جائیں گے، محروم ہیں آج
جیتے جی ہم ہوئے اللہ کو پیارے تو نہیں
رہبر! ہیں تِرے اشعار میں کیسی لہریں
قُلزمِ خونِ شہیداں کے یہ دھارے تو نہیں
داؤد رہبر
No comments:
Post a Comment