Friday, 16 August 2024

حد نظر تک ویرانے ہیں آبادی کا نام نہیں

حدِ نظر تک وِیرانے ہیں، آبادی کا نام نہیں

کس رستہ پہ قدم بڑھاؤں کوئی رستہ عام نہیں

جلتا ریگستان ہے ہر سُو تُند ہوائیں چلتی ہیں

دھو دھو کرتی ہے دوپہری صُبح نہیں ہے شام نہیں

ساری عُمر گُزاری میں نے خُون کے آنسو پی پی کر

خُوشیوں کے دو گُھونٹ پلا دے ایسا کوئی جام نہیں

تنہا ہوں میں اس دنیا میں کوئی نہیں ہے میرے ساتھ

کس کو اب آواز لگاؤں؟ کچھ بھی تو انجام نہیں

در در جا کر دستک دی ہے پر اک در بھی وا نہ ہوا

ہر سو خاموشی ہے بسمل کہیں سے کچھ پیغام نہیں


دیوداس بسمل

No comments:

Post a Comment