Friday, 16 August 2024

سب عمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی

 سب عُمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی

آتا ہے کسی دن تو بشر لوٹ کے گھر بھی

منزل تو بڑی شے، نہ ملی راہگزر بھی

باندھا تھا بڑے شوق سے کیا رختِ سفر بھی

اندر سے پھپھوندے ہوئے دیوار بھی، در بھی

دیکھے ہیں بڑے لوگوں کے ہم نے بڑے گھر بھی

ہر سمت ہے وِیرانی سی وِیرانی کا عالم

اب گھر سا نظر آنے لگا ہے مِرا گھر بھی

تنہائی پسند اتنا بھی مت بن، یہ سمجھ لے

تنہائی میں ہے چین، تو تنہائی میں ڈر بھی

پاگل ہے پتہ پوچھ رہا ہے مِرے گھر کا

کیا خانہ بدوشوں کا ہُوا کرتا ہے گھر بھی


بسمل آغائی

No comments:

Post a Comment