Saturday 17 August 2024

ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا

 ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا

کبھی دریا کبھی صحرا لگے گا

ہوائیں لے اُڑے گی خوشبوؤں کو

تِرے دامن میں بس کانٹا لگے گا

کتابیں پھینک دو دریا میں ساری

پڑھو گے خُود کو تو اچھا لگے گا

وہ پھر ایک بار ہم پہ مہرباں ہے

کوئی ایک زخم پھر گہرا لگے گا

ابھی رُوٹھا ہُوا ہے چاند ہم سے

ہٹے گا ابر تو چہرہ لگے گا


ثمیر کبیر

No comments:

Post a Comment