Sunday 18 August 2024

ظلم ہوتا ہے تو زنجیر ہلا دیتا ہوں

 ظُلم ہوتا ہے تو زنجیر ہلا دیتا ہوں 

نیند سے ظِل الہیٰ کو جگا دیتا ہوں 

مجھ کو تاریخ سے نِسبت ہے تو بس اتنی ہے

روز بچوں کو نیا جھُوٹ سنا دیتا ہوں 

آج بھی چھیڑ کے تقسیم کا خُونی قصہ 

اپنے ماں باپ کو اکثر میں رُلا دیتا ہوں 

جب بھی ملنے کا ارادہ ہو کبھی بچپن سے 

اپنے بچوں کے کھلونوں کو چُھپا دیتا ہوں 

رازق و رِزق کے افسانے کا مزا اپنی جگہ 

جو کماتا ہوں وہی ماں کو تھما دیتا ہوں

آج بھی چھُٹتی نہیں عادت وہ پرانی اپنی 

لا کے مسجد سے میں بچوں کو پڑھا دیتا ہوں


خواجہ جمشید امام

No comments:

Post a Comment