سسکتی تان پہ تُو گیت کوئی گا، چلا جا
دہکتی آگ پہ مجھ کو ذرا نچا، چلا جا
میں دیکھتا تھا اسے جسم سے جدا کر کے
پھر ایک روز اسے کہہ دیا کہ جا چلا جا
اب آ گیا ہے مرا حال پوچھنے کو تو سن
اداس رہتا ہوں تھوڑا سا مسکرا، چلا جا
محبتوں میں تکلف کی کیا ضرورت ہے
اب اٹھ کے مجھ کو گلے سے ذرا لگا چلا جا
پلٹ کے بھی تو نہ دیکھے مجھے نظر بھر کے
میں کر رہا ہوں ترے حق میں یہ دعا چلا جا
بہت پکارا ہے تجھ کو بہت پکارا ہے
کیوں اتنی دیر سے آیا ہے اے خدا چلا جا
ضرورتیں میرے بچوں کا پیٹ کاٹتی ہیں
مدد کو آ گیا کوئی تو یہ کہا؛ چلا جا
بس ایک یار ہے اور یار جھولے لال مِرا
اسے میں کیسے کہوں؛ یار تُو بھی جا چلا جا
حفیظ عامر
No comments:
Post a Comment