دریا کے پاس کوئی کنارا نہیں رہا
قسمت کا ساتھ میرے ستارا نہیں رہا
اپنوں کا اک ہجوم تھا ساحل پہ مستقل
ڈوبے تو تنکے کا بھی سہارا نہیں رہا
یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی
کچھ بھی تو میرے یار ہمارا نہیں رہا
دامن میں چند یادیں ہیں گزرے دنوں کی بس
خوش بختیوں کا کوئی سہارا نہیں رہا
پہلے تو ٹھیک تھا وہ مگر بگڑا اس طرح
جب میں نے کہہ دیا کہ گزارا نہیں رہا
تجھ کو بھلا کے ہم بھی زمانے کے ہو گئے
اب پاس اپنے کوئی بھی چارا نہیں رہا
خیرات کی طرح سے محبت بھی مانگتے
عاصی کو یہ کبھی بھی گوارا نہیں رہا
عاصمہ فراز سلہری
No comments:
Post a Comment