Thursday, 15 August 2024

دریا کے پاس کوئی کنارا نہیں رہا

 دریا کے پاس کوئی کنارا نہیں رہا

قسمت کا ساتھ میرے ستارا نہیں رہا

اپنوں کا اک ہجوم تھا ساحل پہ مستقل

ڈوبے تو تنکے کا بھی سہارا نہیں رہا

یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی

کچھ بھی تو میرے یار ہمارا نہیں رہا

دامن میں چند یادیں ہیں گزرے دنوں کی بس

خوش بختیوں کا کوئی سہارا نہیں رہا

پہلے تو ٹھیک تھا وہ مگر بگڑا اس طرح

جب میں نے کہہ دیا کہ گزارا نہیں رہا

تجھ کو بھلا کے ہم بھی زمانے کے ہو گئے

اب پاس اپنے کوئی بھی چارا نہیں رہا

خیرات کی طرح سے محبت بھی مانگتے

عاصی کو یہ کبھی بھی گوارا نہیں رہا


عاصمہ فراز سلہری

No comments:

Post a Comment