Tuesday, 13 August 2024

چند سانسوں کا بھرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

 چند سانسوں کا بھرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

یہ غنیمت کوئی کم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

میرے دشمن تو مجھے مار چکے تھے کب کا

یہ خبر ان پہ تو بم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

میں تو سمجھا تھا مِری موت پہ روئے ہیں مگر

ان کو اس بات کا غم  ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی 

قتل کرنے میں کسی نے بھی کسر کب چھوڑی

یہ تو مولا کا کرم  ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی


فیصل مضطر

No comments:

Post a Comment