چند سانسوں کا بھرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی
یہ غنیمت کوئی کم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی
میرے دشمن تو مجھے مار چکے تھے کب کا
یہ خبر ان پہ تو بم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی
میں تو سمجھا تھا مِری موت پہ روئے ہیں مگر
ان کو اس بات کا غم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی
قتل کرنے میں کسی نے بھی کسر کب چھوڑی
یہ تو مولا کا کرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی
فیصل مضطر
No comments:
Post a Comment