جو بھی تلوار تک نہیں پہنچا
میرے معیار تک نہیں پہنچا
برسوں پہلے مکاں کا سوچا تھا
ایک دیوار تک نہیں پہنچا
میری منصور سی طبیعت ہے
میں یونہی دار تک نہیں پہنچا
میں بھی یوسف ہوں اپنے بھائیوں کا
ابھی بازار تک نہیں پہنچا
وہ جو نور و بشر میں الجھا ہے
اُن کے انوار تک نہیں پہنچا
یہ بھلا کون سی بغاوت ہے
جُرم اقرار تک نہیں پہنچا
فائدہ کیا ہے شعر کہنے کا
جب مِرے یار تک نہیں پہنچا
رزق پہنچا ہے تیرے نائب تک
ابھی حقدار تک نہیں پہنچا
مجھ کو اُس پار جو ملا تھا امام
وہ تو اِس پار تک نہیں پہنچا
خواجہ جمشید امام
No comments:
Post a Comment