Wednesday 21 August 2024

جو بھی تلوار تک نہیں پہنچا

 جو بھی تلوار تک نہیں پہنچا 

میرے معیار تک نہیں پہنچا

برسوں پہلے مکاں کا سوچا تھا 

ایک دیوار تک نہیں پہنچا 

میری منصور سی طبیعت ہے 

میں یونہی دار تک نہیں پہنچا

میں بھی یوسف ہوں اپنے بھائیوں کا 

ابھی بازار تک نہیں پہنچا 

وہ جو نور و بشر میں الجھا ہے 

اُن کے انوار تک نہیں پہنچا 

یہ بھلا کون سی بغاوت ہے 

جُرم اقرار تک نہیں پہنچا 

فائدہ کیا ہے شعر کہنے کا 

جب مِرے یار تک نہیں پہنچا 

رزق پہنچا ہے تیرے نائب تک 

ابھی حقدار تک نہیں پہنچا 

مجھ کو اُس پار جو ملا تھا امام 

وہ تو اِس پار تک نہیں پہنچا


خواجہ جمشید امام

No comments:

Post a Comment