Wednesday 21 August 2024

اے ہمنشیں فسانۂ دین خدا نہ پوچھ

 مسدس


اے ہمنشیں فسانۂ دینِ خدا نہ پوچھ

اسلام پہ جو وقت مصیبت پڑا نہ پوچھ

کس طرح کاروانِ صداقت لٹا نہ پوچھ

بعد رسولﷺ دہر میں کیا کچھ ہوا نہ پوچھ

کہتی ہے شامِ غم یہ سحر کے چراغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے


تاریخ نے وہ موڑ لیا تھا کہ الحذر

ظالم یزید اور خلافت کے تخت پر

آزر کے بند و بست میں تھا کبریا کا گھر

رہزن کو حادثوں نے بنایا تھا راہبر

ابلیس ورثہ دار خلیلؑ و کلیمؑ تھا

شداد اور نائبِ خلق عظیم تھا


اخلاق بے وطن تھا وفا بے دیار تھی

سجدے تھے مضطرب تو نماز اشکبار تھی

کعبہ اداس، قبر نبیؐ سوگوار تھی

ہلتا تھا آسمان زمیں بے قرار تھی

آتی تھی ہر طرف سے صدا شور و شین کی

اسلام دے رہا تھا دُہائی حسینؑ کی


جس جھوٹ پر بنے تھے حکومت کے بام و در

سازش جو کی گئی تھی خلافت کے نام پر

اسلام جس فریب کو کہتے تھے اہلِ شر

بیکار کر دیا اسے پیاسوں نے دے کے سر

ہر داغ مٹ کے رہ گیا باطل کے زنگ کا

لمحوں نے فیصلہ کیا صدیوں کی جنگ کا


پیام اعظمی

سید قنبر حسین

No comments:

Post a Comment