وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا
اب اس کے گمشدہ ہونے کا احتمال گیا
وہ اک خیال کہ ہر دم جہاں خیال گیا
کبھی عذاب میں رکھا کبھی سنبھال گیا
جو شہر لفظ و معانی سے دور دور رہا
وہ بے ہنر تری گلیوں سے با کمال گیا
حدود وقت سے آگے اڑان بھرتے رہے
امیر وقت کا منصب گیا جلال گیا
ہمیں تو رت کے بدلنے کی کچھ خبر بھی نہیں
ہم اپنی نیند سے جاگے تو ہر ملال گیا
اسیر شب وہ رہا عمر بھر مگر اس بار
اٹھا تو خاک سے سورج کئی اچھال گیا
نہ جانے کس کو وہ آواز دیتا رہتا ہے
کبھی جو پوچھا تو وہ شخص ہنس کے ٹال گیا
اداس اداس ہے اب بھی شعیب فصل مراد
امید امید میں لگتا ہے پھر یہ سال گیا
شاہد احمد شعیب
No comments:
Post a Comment