بجا! کہ اس کو مِرا غم سمجھ میں آتا ہے
ہے جتنا اس سے زرا کم سمجھ میں آتا ہے
وہ چاہے جون ہو، غالب ہو یا خدائے سخن
گزر چکا ہو تو موسم سمجھ میں آتا ہے
وہ ایسی نظم جو فوراً زباں پہ چڑھتی ہے
میں ایسا شعر، جو اک دم سمجھ میں آتا ہے
خود اپنے آپ کو پہلے سمجھنا پڑتا ہے
پھر اس کے بعد یہ عالم سمجھ میں آتا ہے
یہ تم یا میں تو ہماری سمجھ سے باہر ہیں
تِری زباں سے فقط ہم سمجھ میں آتا ہے
کسی کسی کو خدا نے شرف یہ بخشا ہے
کسی کسی کو مُحرّم سمجھ میں آتا ہے
مرزا منیب بیگ
No comments:
Post a Comment