Thursday 15 August 2024

بچھڑتے ٹوٹتے رشتوں کو ہم نے دیکھا تھا

 بچھڑتے ٹوٹتے رشتوں کو ہم نے دیکھا تھا

یہ وقت ہم پہ بھی گزرے گا یہ نہ سوچا تھا

نمی تھی پلکوں پہ بھیگا ہوا سا تکیہ تھا

پتہ چلا کہ کوئی خواب ہم نے دیکھا تھا

ہمارے ذہن میں اب تک اسی کی ہے خوشبو

تمہارے صحن میں بیلے کا ایک پودا تھا

کھرچ کے پھینک دوں کس طرح داغ یادوں کے

میں بھول جاتا وہ سب کچھ تو کتنا اچھا تھا

ہمارے حال کو دیکھو نگاہ عبرت سے

یہ بات ہم سے نہ پوچھو کہ کون کیسا تھا

جناب خضر کہاں آپ مجھ کو چھوڑیں گے

جو ساتھ چھوڑ گیا وہ بھی آپ جیسا تھا

ملے گا کیوں کسی دشمن کی آستیں پہ لہو

تمہارا شمس نگاہ کرم کا مارا تھا


شمس فرخ آبادی

No comments:

Post a Comment