بچھڑتے ٹوٹتے رشتوں کو ہم نے دیکھا تھا
یہ وقت ہم پہ بھی گزرے گا یہ نہ سوچا تھا
نمی تھی پلکوں پہ بھیگا ہوا سا تکیہ تھا
پتہ چلا کہ کوئی خواب ہم نے دیکھا تھا
ہمارے ذہن میں اب تک اسی کی ہے خوشبو
تمہارے صحن میں بیلے کا ایک پودا تھا
کھرچ کے پھینک دوں کس طرح داغ یادوں کے
میں بھول جاتا وہ سب کچھ تو کتنا اچھا تھا
ہمارے حال کو دیکھو نگاہ عبرت سے
یہ بات ہم سے نہ پوچھو کہ کون کیسا تھا
جناب خضر کہاں آپ مجھ کو چھوڑیں گے
جو ساتھ چھوڑ گیا وہ بھی آپ جیسا تھا
ملے گا کیوں کسی دشمن کی آستیں پہ لہو
تمہارا شمس نگاہ کرم کا مارا تھا
شمس فرخ آبادی
No comments:
Post a Comment