یوں آج تِری بات اشارات میں گُم ہے
جیسے کوئی تصریح کنایات میں گم ہے
ہر فرد کی نظریں ہیں اُٹھی چرخ کی جانب
وہ چاند کی مانند سموات میں گم ہے
اب تک ہے تر و تازہ تِری دِید کی سوغات
دل اب بھی تِرے لُطفِ ملاقات میں گم ہے
اپنے دلِ بے تاب کو میں ڈھونڈ رہا ہوں
کب سے تِری یادوں کے حوالات میں گم ہے
تم ڈھونڈتے پھرتے رہو احساسِ مروّت
ہر شخص یہاں اپنے مفادات میں گم ہے
اسماعیل سیفی
No comments:
Post a Comment