Tuesday 20 August 2024

ہے تصور میں عہد نبی سامنے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے تصور میں عہدِ نبیﷺ سامنے، اس زمانے کے پل جگمگاتے ہوئے

آنکھ کے سامنے ہیں مناظر بہت، چلتے پھرتے ہوئے، آتے جاتے ہوئے

ایک چادر کو تھامے ہوئے ہیں سبھی، چاہتے ہیں سبھی آپ سے منصفی

آپ کے دستِ فیصل میں سنگِ سیہ سب قبیلوں کا جھگڑا مٹاتے ہوئے

عتبہ ابن ربیعہ ہے بیٹھا ہوا، صحنِ کعبہ میں ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے

اور نبیﷺ اس کو ترغیب و ترہیب کی چند آیاتِ قرآں سناتے ہوئے

مشرکوں کی غلامی ہے دشوار تر، کیسی تعذیب میں ہے سمیہ کا گھر

اور یہ پہلی شہادت ہے اسلام میں، ایک باندی یہ اعزاز پاتے ہوئے

اس میں ام عبیس اور زنیرہ بھی ہیں، نہدیہ بھی ہیں ابن فہیرہ بھی ہیں

سخت تکلیف میں دیکھتے ہیں انہیں پھر ابوبکرؓ گردن چھڑاتے ہوئے

یہ امیہ ہے، کفار کا سنگ دل، اہل ایماں کے درپے ہے جو مستقل

ایک حبشی غلام، اس کے سینے پہ سل، درس توحید کا دوہراتے ہوئے

امِ معبد کا خیمہ ہے اک مستقر، ہے یہ مکہ سے یثرب کی جانب سفر

دودھ سے بھر گئے اس کی بکری کے تھن، میزبانوں کی قسمت جگاتے ہوئے

خوف سے ہیں سراقہ کے اوسان گُم، دھنس گئے ریت میں اس کے گھوڑے کے سم

اس کو کسریٰ کے دو کنگروں کی خبر دے رہے ہیں نبیﷺ مسکراتے ہوئے

دور سے ایک ناقہ ابھرتا ہوا، اک سوار آپ پر سایا کرتا ہوا

حد یثرب پہ انصار کی لڑکیاں، گیت گاتے ہوئے، دف بجاتے ہوئے

آنے والا جب اس شہر میں آئے گا، تا ابد یہ مدینہ ہی کہلائے گا

ایک چھوٹی سی بستی ہے یثرب ابھی، راہ ہجرت میں آنکھیں بچھاتے ہوئے

دن نکلنے لگا رات ڈھلنے لگی، منجمد تھی جو ظلمت پگھلنے لگی

اوس و خزرج کی قسمت بدلنے لگی، علم کی روشنی میں نہاتے ہوئے

اک کھجوروں کا باغ اور کچھ مال و زر، ہے یہ سلمانِ فارسؓ کا بخت دگر

چومتی ہے زمیں آپ کی انگلیاں کچھ کھجوروں کے پودے لگاتے ہوئے

دور ہجرت کی تشنہ دہانی ہے یہ، بئر رومہ ہے اور میٹھا پانی ہے یہ

اور عثمانؓ اسے وقف کرتے ہوئے، پیاس شہرِ نبیﷺ کی بجھاتے ہوئے

تین افراد کو سنبلہ کی تپش اور کھجوروں کے موسم نے روکا ہوا

ایک غزوے کی خاطر نکلتے ہوئے قافلے دور سے دور جاتے ہوئے

ایک تسمے کی صورت تھا پانی یہاں، چھو رہی ہیں جسے آپ کی انگلیاں

یہ تبوک اور یہ چشمے ابلتے ہوئے، تشنہ صحرا کو گلشن بناتے ہوئے


سعود عثمانی 

No comments:

Post a Comment