آئے گا کہہ کر گیا تھا پھر مگر آیا نہیں
منتظر میں رہ گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
اک نظر آیا نظر وہ پھر نظر سے چھپ گیا
پھر نظر کو اک نظر بھی وہ نظر آیا نہیں
زندگی کے راستے پر طے کیا لمبا سفر
پر سفر میں زندگی کے ہمسفر آیا نہیں
ایک ڈر اکثر ڈراتا ہے مجھے بھی آج تک
آج تک کیوں دل میں میرے کوئی ڈر آیا نہیں
وہ اثر جس کے اثر پہ ہر اثر ہو بے اثر
اب تلک تیری غزل میں وہ اثر آیا نہیں
یہ جو ہر سو تیرگی بکھری ہوئی ہے اس قدر
کیا تِری محفل میں اب تک بھاسکر آیا نہیں
بھاسکر شکلا
No comments:
Post a Comment