Sunday, 27 October 2024

آئے گا کہہ کر گیا تھا پھر مگر آیا نہیں

 آئے گا کہہ کر گیا تھا پھر مگر آیا نہیں

منتظر میں رہ گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں

اک نظر آیا نظر وہ پھر نظر سے چھپ گیا

پھر نظر کو اک نظر بھی وہ نظر آیا نہیں

زندگی کے راستے پر طے کیا لمبا سفر

پر سفر میں زندگی کے ہمسفر آیا نہیں

ایک ڈر اکثر ڈراتا ہے مجھے بھی آج تک

آج تک کیوں دل میں میرے کوئی ڈر آیا نہیں

وہ اثر جس کے اثر پہ ہر اثر ہو بے اثر

اب تلک تیری غزل میں وہ اثر آیا نہیں

یہ جو ہر سو تیرگی بکھری ہوئی ہے اس قدر

کیا تِری محفل میں اب تک بھاسکر آیا نہیں


بھاسکر شکلا

No comments:

Post a Comment