جب اپنا درد سنایا تو آنکھ بھر آئی
گلے سے ماں نے لگایا تو آنکھ بھر آئی
ضعیف باپ کے دکھ درد کیا سناؤں میں
بہو نے اس کو ستایا تو آنکھ بھر آئی
غریب باپ کی حالت پہ ترس آنے لگا
وہ دے سکا نہ کرایہ تو آنکھ بھر آئی
بزرگ شخص سمجھ کر کسی نے رستے میں
بڑے ادب سے بلایا تو آنکھ بھر آئی
میں دل گرفتہ جو گھر آیا باپ نے مجھ کو
یونہی گلے سے لگایا تو آنکھ بھر آئی
تمہارے ہجر کے وحشت شناس لمحے نے
تمہارا خواب دکھایا تو آنکھ بھر آئی
ہمارے یار نے اغیار کی صدارت میں
ہمارا شعر سنایا تو آنکھ بھر آئی
یقین جان کہ اس کی دعا لغزش سے
فلک نے خون بہایا تو آنکھ بھر آئی
امیرِ شہر کی جاہل مزاج رسموں سے
میں تم کو چھین نہ پایا تو آنکھ بھر آئی
وہ بھول بیٹھا تھا مجھ کو خدا کی بستی میں
خدا نے پھر سے ملایا تو آنکھ بھر آئی
غزل میں ڈھانپ کے نقش و نگار ہادی نے
تمہارا عکس بنایا تو آنکھ بھر آئی
سیف الرحمان ہادی
No comments:
Post a Comment