Thursday 24 October 2024

جب اپنا درد سنایا تو آنکھ بھر آئی

 جب اپنا درد سنایا تو آنکھ بھر آئی

گلے سے ماں نے لگایا تو آنکھ بھر آئی

ضعیف باپ کے دکھ درد کیا سناؤں میں

بہو نے اس کو ستایا تو آنکھ بھر آئی

غریب باپ کی حالت پہ ترس آنے لگا

وہ دے سکا نہ کرایہ تو آنکھ بھر آئی

بزرگ شخص سمجھ کر کسی نے رستے میں

بڑے ادب سے بلایا تو آنکھ بھر آئی

میں دل گرفتہ جو گھر آیا باپ نے مجھ کو

یونہی گلے سے لگایا تو آنکھ بھر آئی

تمہارے ہجر کے وحشت شناس لمحے نے

تمہارا خواب دکھایا تو آنکھ بھر آئی

ہمارے یار نے اغیار کی صدارت میں

ہمارا شعر سنایا تو آنکھ بھر آئی

یقین جان کہ اس کی دعا لغزش سے

فلک نے خون بہایا تو آنکھ بھر آئی

امیرِ شہر کی جاہل مزاج رسموں سے

میں تم کو چھین نہ پایا تو آنکھ بھر آئی

وہ بھول بیٹھا تھا مجھ کو خدا کی بستی میں

خدا نے پھر سے ملایا تو آنکھ بھر آئی

غزل میں ڈھانپ کے نقش و نگار ہادی نے

تمہارا عکس بنایا تو آنکھ بھر آئی


سیف الرحمان ہادی

No comments:

Post a Comment