بتاؤ آپ کے دل میں حشر برپا نہیں ہوتا؟
کسی کی جان لے لینا ارے اچھا نہیں ہوتا
جو مانگا اپنا دل تو کہہ دیا; ملنا نہیں واپس
محبت میں میری جاں دیکھ لو ایسا نہیں ہوا
جگر پھر سے کیا چھلنی بتاؤ چاہتے کیا ہو
نظر کا تیر تیرا کیوں بھلا سیدھا نہیں ہوتا
رحم ہو با خدا مجھ پہ میری بس التجا سن لو
زخم جو یار دے جائے کبھی اچھا نہیں ہوتا
لگے وہ مجھ سے کہنے جا بڑا آیا تٌو سمجھانے
کبھی ایسا نہیں ہوتا کبھی ویسا نہیں ہوتا
دل مرحوم آہیں بھر رہا ہے اس لیے شاید
کہ افسانہ محبت کا کبھی پورا نہیں ہوتا
کیا ثابت جرم میرا میری آہ و فغاں نے بس
وہ اکبر قتل کرتے ہیں تو کیوں چرچا نہیں ہوتا
لگے وہ کہنے ٹھوکر مار کے گورِ غریباں کو
یہ کتنا ڈھیٹ ہے وحشی کہ یہ زندہ نہیں ہوتا
علی مجھ کو کبھی تو عشق کی دولت عطا ہو گی
جو سگ ہو تیرے در کا وہ کبھی رسوا نہیں ہوتا
علی اعجاز سیال
No comments:
Post a Comment