غم کا ابلاغ بہ احساس طرب چاہتی ہے
بات وہ ہے کہ ادا ہونے کو ڈھب چاہتی ہے
ایک تو پاس مِرے درہم و دِیں کچھ بھی نہیں
دوسرا شومئ قسمت کہ وہ سب چاہتی ہے
میں کہ ہوں موسم گل حجت زنجیر بہ پا
وہ تو خوشبو ہے چلی آتی ہے جب چاہتی ہے
کس کے آنسو ہیں جو آنکھوں کی رسد چاہتے ہیں
بات سی جی میں یہ کس کے ہے جو لب چاہتی ہے
میں بھٹک کر بھی تِرے خواب میں آیا نہ کبھی
اور کیا مجھ سے تِری خلوت شب چاہتی ہے
میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ کرا کسب جنوں
تجھے رونے کو بھی اب آنکھ سبب چاہتی ہے
عثمان حبیب
No comments:
Post a Comment