عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صُبح مکہ میں ہوئی آیا ہے تارا نُور کا
نُور کی سرکار سے ہر سُو اُجالا نور کا
آمنہؑ کے نُور سے یوں نُور پھیلا چار سُو
چاروں جانب سب نے دیکھا ذرہ ذرہ نور کا
حضرت جبریلؑ جھنڈا لے کے کعبے پر کھڑے
معترض جھنڈے پہ جو، دیکھے وہ جھنڈا نور کا
انبیاء مژدے سناتے جن کی آمد کے چلے
ہو مبارک! آ گئے وہ لے کے تحفہ نور کا
ظلمت دوراں چھُپا لے اپنا چہرہ خلق سے
ہو گیا ظاہر زمانے پر ستارا نور کا
جو در دولت پہ آیا نور والا ہو گیا
نسبت خیر البشرﷺ سے ادنیٰ بندہ نور کا
اک اشارے پر ہوا، وہ چاند شق دیکھو ادھر
"کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا"
عرش تا فرش زمیں تھی نور کی پھوہار وہ
چاند سورج دیکھتے تھے سلسلہ کیا نور کا
حضرت رُوح الامیںؑ سِدرہ پہ جا، گویا ہوئے
میں تو جا سکتا نہیں جائے دُلارا نور کا
روشنی ہی روشنی ہے اہل ایماں کے لیے
مومنوں کے واسطے قرآں اتارا نور کا
آنکھ کی پُتلی میں چمکا دل کے آنگن میں کھلا
لا الٰہ کی گونج سے ہر سُو اجالا نور کا
کیوں صفا کی چوٹی کا اعلان یہ سنتے نہیں
کب تلک حق سے پھرو گے حق تو رستہ نور کا
وہ حِرا کے پتھروں کو نور ایسا کر گئے
آج بھی دیکھیں نظر آتا ہے شعلہ نور کا
وہ اُحد ہو، بدر کا میدان یا سڑکیں رواں
آنکھ جس جانب اُٹھے دیکھو نظارہ نور کا
ان کی میٹھی میٹھی باتیں جب کبھی کرنے لگیں
لگتا ہے کہ جان و دل میں کوئی چشمہ نور کا
جا بجا قرآن کے اوراق پر ذکرِ جمیل
لفظ لفظ سے عیاں ہے نور پارہ نور کا
فیضی فیض اعلیٰ حضرت شیخ کی درگاہ سے
مل رہا ہے تجھ کو وافر دیکھ صدقہ نور کا
مبشر حسین فیضی
No comments:
Post a Comment