ٹکنے ہی نہیں دیتی یہ حُسن خیالی
اشرف ہیں زمانے میں تیرے در کے موالی
دل چیز ہی کیا ہے کہ لُٹایا ہی نہ جائے
اے موت! کبھی آ تو سہی بن کے سوالی
بس دید ہی مانگی تو دیا ہم کو صِلہ یہ
ہم نے بھی بتا کوئی تیری بات ہے ٹالی
اک تھا جو مسیحا بڑا مشہورِ زمانہ
کمبخت اسی نے تو میری جاں ہے نکالی
ساغر ہوا ہے ایک ہی درویشوں کا بانی
اک ہاتھ میں سگریٹ اور چائے کی پیالی
آئے علی! وہ آ ج جو پینے کے لیے ہم
حضرت کو پلائیں گے نصرت کی قوالی
علی اعجاز سیال
No comments:
Post a Comment