Monday 21 October 2024

آنکھوں میں شہر نور کے منظر لیے سمیٹ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آنکھوں میں شہرِ نُور کے منظر لِیے سمیٹ

وجد و سرُور و کیف کے ساگر لیے سمیٹ

دل پر تو نقش گُنبدِ خضرٰی کا عکس ہے

جلوے حرم کے رُوح کے اندر لیے سمیٹ

گُل ہیں دیارِ نُور کے سارے ہی لا جواب

اپنے نصیب میں تھے جو، اکثر لیے سمیٹ

موجِ صبا نے بڑھ کے گلے سے لگا لیا

پُر جوش رحمتوں کے سمندر لیے سمیٹ

دُشوار مرحلہ تھا گُزرنے کا پُل سے، تب

جبریلؑ نے پروں میں ثناء گر لیے سمیٹ

آنکھوں میں اشک دارِ نبیؐ میں اُمڈ پڑے

بے تاب تھے نکلنے کو باہر، لیے سمیٹ

دل کو غمِ فراق نے زینب جِلا، دیا

قلبِ حزِیں نے نُور کے دفتر لیے سیمٹ


سیدہ زینب سروری قادری

No comments:

Post a Comment