دل میرا بے قرار نہیں میرے بس میں ہے
اک چہرہ خوش نما نہ مِری دسترس میں ہے
اِک تو حسیں، نزاکت و معصومیت الگ
اِک لاکھ میں یہ خوبی کوئی پانچ دس میں ہے
اُس سے دعا سلام، نہ ہی آشنائی ہے
اور دوڑ، پِھر رہا مِری ہر ایک نس میں ہے
معصوم سا ہے چہرہ مگر شوخ طبع ہیں
ایسا حسین دیکھا نہیں کچھ برس میں ہے
وہ اُڑنا جانتا ہے مگر گھونسلے کی فکر
آزاد تو ہے پھر بھی مگر وہ قفس میں ہے
شہزادہ کوئی اُن کو ملے گا، جی حق بھی ہے
سالم شریف آدمی ہے، ان کی جَس میں ہے
سالم احسان
No comments:
Post a Comment