گھر راکھ ہوئے پھر بھی اندھیرے نہیں نکلے
گاؤں کی سیاست سے وڈیرے نہیں نکلے
یہ زہر بھری دنیا انہیں راس بہت ہے
سانپوں کے تعاقب میں سپیرے نہیں نکلے
پانی میں گُھلے زہر کی ان کو بھی خبر ہے
کندھوں پہ لیے جال مچھیرے نہیں نکلے
اس بار بھی حالات سے سمجھوتہ رہا ہے
اس بار بھی سڑکوں پہ پھریرے نہیں نکلے
جو شام کو نکلے ہیں وہ منزل پہ لُٹے ہیں
معلوم ہو ہم پھر بھی سویرے نہیں نکلے
جو خواب میری آنکھوں میں پلتے رہے برسوں
تعبیر نکل آئی تو میرے نہیں نکلے
میں بھی تو کھنکتی ہوئی مٹی سے بنا ہوں
کس منہ سے کہوں مِتر چنگیرے نہیں نکلے
ظفر نیازی
No comments:
Post a Comment