دل ہے ہجومِ یاس کا منظر لیے ہوئے
زانو پہ آج کس کا ہیں وہ سر لیے ہوئے
ایک ایک کر کے اٹھ گئے یارانِ بادہ نوش
ساقی کھڑا ہے بزم میں ساغر لیے ہوئے
دل ہے وہ دل کہ جس میں محبت کی چوٹ ہو
اور وہ جگر جو ہو کوئی نشتر لیے ہوئے
دل میں تِرا خیال ہے آنکھوں میں تیری شکل
یعنی میں پھرتا ہوں تجھے گھر گھر لیے ہوئے
پامال ہے جو سنگِ حوادث سے چور ہے
آیا ہوں تیری بزم میں وہ سر لیے ہوئے
خاموش ہے پہ لغزشِ پا کہہ رہی ہے صاف
دل ہے کسی کے پیار کی ٹھوکر لیے ہوئے
یوں دیکھیے کہ ہلنے کی طاقت نہیں رہی
پہلو میں ہوں ظفر دلِ مضطر لیے ہوئے
ظفر ہاشمی
No comments:
Post a Comment