غم کی خُوشرنگ سی لہک بن کر
زندگی رہ گئی سسک بن کر
ادھ جلی رات کے الاؤ سے
کوئی شعلہ اُٹھے لپک بن کر
زندگی کے سیہ سمندر پر
کون اُترا ہے پھر دھنک بن کر
چیختی وحشتوں کے سائے میں
کتنے غم رہ گئے کسک بن کر
قُربتوں کا زوال تو دیکھو
پیار بھی رہ گیا جھجھک بن کر
رِند شیشے کے کتنے تاج محل
ڈھ گئے وقت کی کھنک بن کر
رند ساغری فتح گڑھی
No comments:
Post a Comment