Tuesday 22 October 2024

کیا میں بدکار ہوں بھوکے بچے کی فاقہ زدہ آنکھ میں

 کیا میں بدکار ہوں


بھوکے بچے کی فاقہ زدہ آنکھ میں

دوسرے دن کا سُورج بھی ڈھل جائے گا

باپ کی طرح بیٹا بھی مر جائے گا

سوچ کر ڈر گئی

گھر سے باہر گئی، ایک در پہ رُکی

جس کے ماتھے پہ ہی ہذا من فضل ربی کی تحریر تھی

ان سے کہنے لگی؛ مجھ کو نامِ خدا اتنا ہو آسرا

جس سے معصوم کا پیٹ بھرنے لگے

فضل کی چھاؤں میں ایک مغرور نے ایک مجبور سے چیخ کر یہ کہا

چل نکل ریچ زدہ، یہ جوانی کے ڈورے کہیں اور ڈال

پہلا در بند ہوا

آنکھ سے آنسو جانے کیوں بے گھر ہوا

پھر نئے عزم سے سیدھی مسجد گئی

ان سے کہنے لگی؛ میں مسلمان ہوں اور پریشان ہوں

صبر کا درس کا دے کے لوٹائی گئی

مندروں میں گئی، معبدوں میں گئی پر نکالی گئی

شام ڈھلنے لگی، تیز چلنے لگی

بے دھیانی میں بازار میں، ایسے بازار میں

جس کا کوئی بھی در، کسی مجبور پر بند ہوتا نہیں

جہاں کوئی کسی کا بھی ہوتا نہیں

جہاں کتنے بدن، بے نیاز تھکن

رتجگوں کی جلن، ہوس کی انگلیاں کھینچتے پیرہن

دھن کی جھنکار پہ رقص میں محو تھے

دیکھ کر ڈر گئی، سوچ گھر تک گئی

پھر وہ چپ چاپ ہی پستیوں سے اٹی سیڑھیاں چڑھ گئی

اس کی مجبوریاں اک خریدار کی جھولی میں گر گئیں

اس رفاقت میں جس نے بھی جو بھی کہا ہاں وہ جھوٹ تھا

سچ بس اتنا ہی تھا اس کی بھیگی ہتھیلی پہ اک نوٹ تھا

اس کو مٹھی میں ایسے جکڑنے لگی

بانئ ملک کی آج تصویر کی سانس اُکھڑنے لگی

ہانپتی کانپتی، گھر کو جاتی ہوئی جب گلی میں مُڑی

گھر کے آگے آوازوں کا اک شور تھا

دیکھتے ہی اسے سارے چُپ ہو گئے

پھر معزز، مقدس وہ مسجد امام تھوڑا آگے بڑھا اور کہنے لگا

یوں بلکتے ہوئے ایک معصوم کو چھوڑ کر کیوں گئی

تُو تو عدت میں تھی

دیکھیں تو اس کی کیا حالاتِ زار ہے

اور ہاتھوں میں ساماں کا انبار ہے

یہ تو بدکار ہے، یہ تو بدکار ہے

سبھی کہنے لگے؛ یہ تو بدکار ہے

ہاں میں بدکار ہوں، سب کو کہنے لگی

لیکن سوچ تو اے امام فرو، کیا میں بدکار ہوں؟

کیا میں بدکار ہوں؟


محسن عباس حیدر

No comments:

Post a Comment