تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں
عشق روزی تو نہیں ہے کہ گزارا
منفعت چاہے تو الفت کو تجارت نہ بنا
جانتے بُوجھتے ہم کیسے خسارا
تُو ہواؤں کے جھپٹے میں نہ آیا ہو کہیں
دو گھڑی ٹھہر جا تیرا بھی اتارا کر لیں
تیرے وعدوں پہ یقیں ہو تو اسی آس سے ہم
جسم کو راکھ کریں روح کو پارہ کر لیں
غیر سے بھی وہ مخاطب ہیں تو امید سی ہے
بات ہم سے نہ سہی ذکر ہمارا کر لیں
ہم سے غافل نہیں رہتے کبھی طوفاں کہ کہیں
ڈوبتے ڈوبتے تنکے کو سہارا کر لیں
ہوئی متروک وفا،۔ عام ہوئی بوالہوسی
عقل کہتی ہے کہ ہم بھی کوئی چارہ کر لیں
راشد اطہر
No comments:
Post a Comment