Friday 18 October 2024

یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے

 یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے

بزم میں آتے ہی لگتا ہے کہ تنہائی ہے

سچ تو یہ ہے کہ مجھے راس نہیں آتا کچھ

میری عادت سے مِری زندگی اکتائی ہے

ذہن میں نام نہیں چہرہ نہیں ہے کوئی

آج اک رُوح کو اک رُوح کی یاد آئی ہے

وہ ملاقات مِری جان کچھ اک پل کی سہی

اس کی تصویر بڑے فریم میں بنوائی ہے

میں غزل کہتے ہوئے چاند تلک ہو آئی

آسماں میں بھی مِری سب سے شناسائی ہے


سنجو شبدتا

No comments:

Post a Comment