یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے
بزم میں آتے ہی لگتا ہے کہ تنہائی ہے
سچ تو یہ ہے کہ مجھے راس نہیں آتا کچھ
میری عادت سے مِری زندگی اکتائی ہے
ذہن میں نام نہیں چہرہ نہیں ہے کوئی
آج اک رُوح کو اک رُوح کی یاد آئی ہے
وہ ملاقات مِری جان کچھ اک پل کی سہی
اس کی تصویر بڑے فریم میں بنوائی ہے
میں غزل کہتے ہوئے چاند تلک ہو آئی
آسماں میں بھی مِری سب سے شناسائی ہے
سنجو شبدتا
No comments:
Post a Comment