Friday, 18 October 2024

میری زندگی کے ہیں چار دن انہیں کیوں نہ ہنس کر گزار لوں

 میری زندگی کے ہیں چار دن انہیں کیوں نہ ہنس کر گزار لوں

جو الجھ الجھ کے بگڑ گئی، اسے اب سلجھ کے سنوار لوں

کبھی اس طرح، کبھی اس طرح پھنسے، پھنس کے پھڑ پھڑکا کیے

پھرا لے کے پاپ کی گٹھڑیاں، انہیں کیوں نہ سر سے اتار لوں

مجھے آزمائش میں ڈال کے اسے اب تسلی تو ہو چکی

دی فلک نے اب تک جو بے کلی اسے اب سکون و قرار لوں

دن ڈھل چکا ہوئی شام تب، گئی رات وقتِ سحر ہے اب

ہر اک انتہا کی ہے ابتداء، میں خزاں سے مژدہ بہار لوں

ہوا کار دنیا تمام کب، کروں فکرِ عقبیٰ ہے وقت اب

ہو کے شادماں مسرور تب میں پناہ کنج مزار لوں


مسرور کاشمیری

No comments:

Post a Comment