میری زندگی کے ہیں چار دن انہیں کیوں نہ ہنس کر گزار لوں
جو الجھ الجھ کے بگڑ گئی، اسے اب سلجھ کے سنوار لوں
کبھی اس طرح، کبھی اس طرح پھنسے، پھنس کے پھڑ پھڑکا کیے
پھرا لے کے پاپ کی گٹھڑیاں، انہیں کیوں نہ سر سے اتار لوں
مجھے آزمائش میں ڈال کے اسے اب تسلی تو ہو چکی
دی فلک نے اب تک جو بے کلی اسے اب سکون و قرار لوں
دن ڈھل چکا ہوئی شام تب، گئی رات وقتِ سحر ہے اب
ہر اک انتہا کی ہے ابتداء، میں خزاں سے مژدہ بہار لوں
ہوا کار دنیا تمام کب، کروں فکرِ عقبیٰ ہے وقت اب
ہو کے شادماں مسرور تب میں پناہ کنج مزار لوں
مسرور کاشمیری
No comments:
Post a Comment