نہ پوچھ کیسے یہ پل پل شمار ہو رہا ہے
تمہارا شام و سحر انتظار ہو رہا ہے
تمہارے لفظوں میں تو پھول رکھ دئیے گئے ہیں
تمہارے بعد بھی جشن بہار ہو رہا ہے
میں اس کو یاد کروں گر بھُلا دیا گیا ہو
یہ رشتہ ہجر میں تو پائدار ہو رہا ہے
یہ کیسے شہر میں پہنچا دیا گیا ہے مجھے
کہ تیغ ہجر کا یاں دل پہ وار ہو رہا ہے
عجیب خوف کا احساس دے دیا گیا ہے
اڑان پر یہ اثر بار بار ہو رہا ہے
کوئی تو چارہ کرو، چارہ سازو! غم خوارو
یہ عشق تو مِرے سر پر سوار ہو رہا ہے
بلال حسرت
No comments:
Post a Comment