نام سے منزل کے رہبر گھبرانے والا تھا
مجھ کو پتہ تھا راہوں سے کترانے والا تھا
جان بچا کر طُوفاں بھاگا دریا سے باہر
ورنہ سفینہ خود اس سے ٹکرانے والا تھا
زہرہ جبینوں نے دھرتی پر روک لیا ورنہ
چاند ستاروں سے آگے میں جانے والا تھا
خیر ہوئی رُخ تیز ہوا کا اس نے موڑ دیا
ساون میں بادل شعلے برسانے والا تھا
مانگ رہا ہے راہوں میں کشکول لیے دیکھو
وہ جو پرانی دولت پر اِترانے والا تھا
اس نے کہا تھا؛ پچھتاؤ گے ترکِ تعلق پر
میں کب ایسی باتوں سے گھبرانے والا تھا
سیلانی سیوتے
No comments:
Post a Comment