سنگ ہاتھوں میں صنم سینے میں ہے
بت کدہ دل میں، حرم سینے میں ہے
ہائے، ہائے، اپنی نادانی نہ پوچھ
لا زباں پر اور نعم سینے میں ہے
پشت کی جانب جھُکا جاتا ہے دل
صاف دِکھتا ہے کہ خم سینے میں ہے
سوچتی آنکھوں کے رستے چارہ گر
درد اُترا دم بہ دم سینے میں ہے
بر زباں دُنیائے دو رنگ و رسد
پر میاں! ملکِ عدم سینے میں ہے
گرچہ اچھا ہوں تو کیوں اچھا ہوں میں
بس یہی ابرار! غم سینے میں ہے
خالد ابرار
No comments:
Post a Comment