یہ کارواں میں جو روتا ہوا مسافر ہے
کسی کے ہجر میں اُجڑا ہوا مسافر ہے
دکھائی دور سے یوں دے رہا ہے صحرا میں
شجر بھی دھوپ میں بیٹھا ہوا مسافر ہے
خیال رکھنا کہ یہ چین لوٹ لے نہ کہیں
سفر میں ساتھ جو ہنستا ہوا مسافر ہے
اسے خبر ہی نہیں ریل جانے والی ہے
یہ دل بھی بینچ پہ سویا ہوا مسافر ہے
قمر یہ چھیڑتا رہتا ہے داغ سینے کے
سرائے دل میں جو ٹھہرا ہوا مسافر ہے
کامران قمر
No comments:
Post a Comment