اس کی چاہت زندگی کا نام ہے
فصل گل اس کی ہنسی کا نام ہے
جب سے اترا ہے وہ میری روح میں
بے خودی اب آگہی کا نام ہے
اس کے در پہ جا کے جو سجدہ کرے
بندگی، اس بندگی کا نام ہے
جب بچھڑ کر وہ کبھی ہم سے ملے
شادمانی اس گھڑی کا نام ہے
جو، وفا کی راہ میں پتھر ہوا
ارجمند، اس آدمی کا نام ہے
ارجمند قریشی
No comments:
Post a Comment