جس کی خواہش تھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ
آج وہ شخص زمیں بوس ہے دستار کے ساتھ
گو منافق ہے مگر پھر بھی حسیں لگتا ہے
جب بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
تُو اگر اے مِرے سالار اسی میں خوش ہے
رہن رکھ دیتے ہیں دستار بھی تلوار کے ساتھ
کیسا موسم ہے کہ ہر سمت نظر آتے ہیں
سر ثمر کی طرح لٹکے ہوئے اشجار کے ساتھ
جانے کیا بات اسے گھر سے اُٹھا لائی ہے
خواب بھی بیچتی پھرتی ہے وہ اخبار کے ساتھ
اے مِرے زُود فراموش کبھی دیکھ ادھر
کیا گزرتی ہے یہاں پر تِرے شاہکار کے ساتھ
دیکھ لیتا ہے فقط ایک نظر جو بھی تجھے
بیٹھ جاتا ہے وہ لگ کر تیری دیوار کے ساتھ
غالب و فیض سے اپنا ہے وہ رشتہ اظہر💫
جیسے اِک کُونج کا رشتہ ہو کسی ڈار کے ساتھ
اظہر کمال
No comments:
Post a Comment