شمع کیوں آنے لگی میرے سیہ خانے تک
دور مجھ سوختہ ساماں سے ہیں پروانے تک
ہمیں محروم نہ رکھ ساغر مے سے ساقی
مدتوں میں کبھی آ جاتے ہیں میخانے تک
حسن نے باندھا ہے ناقابل تسخیر طلسم
اپنے افسونِ نظر سے مِرے افسانے تک
میں تو میں ہوں در و دیوار بچھائیں آنکھیں
کبھی تم آ کے تو دیکھو مِرے کاشانے تک
فُرقت گُل میں جو تو گرم فُغاں ہے بلبل
آگ لگ جائے نہ گُلشن میں بہار آنے تک
چشم تر ہوتی ہے جس وقت پگھلتا ہے دل
بڑی مُشکل سے یہ مے آتی ہے پیمانے تک
شدتِ کرب ہے تمہید سکوں کی لیکن
جان پر گُزرے گی کیا دل کو قرار آنے تک
ابھی آنکھوں ہی کو دے بزم میں گردش ساقی
یہی پیمانے چھلکتے رہیں جام آنے تک
دے نہ دے ساتھ مِرا گردشِ دوراں آصف
زندہ رہنا ہے بہر حال قضا آنے تک
آصف بنارسی
No comments:
Post a Comment