Thursday, 17 October 2024

غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا

 غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا

نئی سحر میں نیا آفتاب رکھ دینا

سوال کر کے پڑھوں گا تمہاری آنکھوں کو

تم اپنی آنکھوں میں اپنا جواب رکھ دینا

مِری نمو کے کرشمے جو دیکھنا چاہو

مِرے وجود میں اک اضطراب رکھ دینا

نہ ختم ہو گا کبھی میری تشنگی کا سفر

نظر کے آگے چمکتے سراب رکھ دینا

شکیل تم کو سمجھنا اگر کوئی چاہے

تم اس کے سامنے دل کی کتاب رکھ دینا


فاروق شکیل

No comments:

Post a Comment