غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا
نئی سحر میں نیا آفتاب رکھ دینا
سوال کر کے پڑھوں گا تمہاری آنکھوں کو
تم اپنی آنکھوں میں اپنا جواب رکھ دینا
مِری نمو کے کرشمے جو دیکھنا چاہو
مِرے وجود میں اک اضطراب رکھ دینا
نہ ختم ہو گا کبھی میری تشنگی کا سفر
نظر کے آگے چمکتے سراب رکھ دینا
شکیل تم کو سمجھنا اگر کوئی چاہے
تم اس کے سامنے دل کی کتاب رکھ دینا
فاروق شکیل
No comments:
Post a Comment