دل و نگاہ میں اک اضطراب سا کیا ہے
اُجاڑ راہوں میں تنہا گلاب سا کیا ہے
پلٹ کے آیا نہ خوشبو کا وہ حسیں جھونکا
مگر یہ دھیان میں روشن حجاب سا کیا ہے
اگر نہیں ہے ملاقات بھی مقدر میں
دھڑکتے دل میں یہ نشہ شراب سا کیا ہے
پگھل سکے تِری آنکھوں کی سرد مہری بھی
ورائے وہم و گماں یہ سراب سا کیا ہے
لٹا ہے عین بہاروں میں گلستاں اپنا
کوئی بتائے تو آخر یہ خواب سا کیا ہے
کھلے ہوئے ہیں دریچے وفاؤں کے کیفی
بجز تسلی ہماری کتاب میں کیا ہے
کیفی فریدی
No comments:
Post a Comment