Tuesday 22 October 2024

بچھڑنے والوں کے نام یہ کیسی گھڑی ہے

 بچھڑنے والوں کے نام


کبھی سوچا نہ تھا

اداسیاں یوں بھی

ڈیرہ ڈالیں گی 

گماں ہوتا ہے 

جیسے کشتیاں 

جلا کر آئی ہیں 

کوئی بتلائے تو

زمیں کا چکر تھم گیا ہے

یا 

تھرکتے وقت کے ضدی

پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

زندگی کے پروں میں 

خوشیوں کے دل میں 

انہونی کی میخ گڑی ہے

کوئی سمجھائے تو

یہ کیسی گھڑی ہے

موت سرد چہرہ لیے

میری گلی میں آ کھڑی ہے

ہر ساعت غم سے جڑی ہے 

سب کو بچھڑنے کی پڑی ہے


سیدہ آیت گیلانی

No comments:

Post a Comment