بچھڑنے والوں کے نام
کبھی سوچا نہ تھا
اداسیاں یوں بھی
ڈیرہ ڈالیں گی
گماں ہوتا ہے
جیسے کشتیاں
جلا کر آئی ہیں
کوئی بتلائے تو
زمیں کا چکر تھم گیا ہے
یا
تھرکتے وقت کے ضدی
پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
زندگی کے پروں میں
خوشیوں کے دل میں
انہونی کی میخ گڑی ہے
کوئی سمجھائے تو
یہ کیسی گھڑی ہے
موت سرد چہرہ لیے
میری گلی میں آ کھڑی ہے
ہر ساعت غم سے جڑی ہے
سب کو بچھڑنے کی پڑی ہے
سیدہ آیت گیلانی
No comments:
Post a Comment