صُورتوں کے آئینے کجلا گئے
وقت کی کروٹ میں سُورج آ گئے
بُجھ گئے تارے ہزاروں آنکھ میں
چاند کتنے تھے جو اب گہنا گئے
جس تمنا پر تھی جینے کی بساط
اس تمنا سے بھی اب گھبرا گئے
شام کے لمحے گئے کچھ اس طرح
دل سے تیری یاد کو الجھا گئے
پھر سے کاوش اس گلی کا رخ کیا
جاتے جاتے دام میں پھر آ گئے
آفتاب کاوش
No comments:
Post a Comment