نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات
کہ چل نکلتی ہے اکثر یہیں سے جنگ کی بات
تمہارے شہر میں کس کس کو آئینہ دکھلائیں
ہزار طرح کے چہرے ہزار رنگ کی بات
ہر ایک بات پہ طعنہ ہر ایک بات پہ طنز
کبھی تو یار کیا کر کسی سے ڈھنگ کی بات
میں اس کے وعدۂ فردا پہ کیا یقیں کرتا
ہنسی میں ٹال گیا ایک شوخ و شنگ کی بات
اٹھا ہے سنگِ ملامت بہ نام شیشۂ دل
قرار پائی ہے شیشے کے ساتھ سنگ کی بات
عجیب حال ہے یاروں کی بے حسی کا ظفر
سکوت مرگ کا عالم رباب و چنگ کی بات
ظفر نسیمی
No comments:
Post a Comment