اے دشتِ بے اماں اب پیچھا نہ کر ہمارا
آتا ہے یاد ہم کو دل بے ثمر ہمارا
کوئی نہیں جو پوچھے رخ ہے کدھر ہمارا
آخر کسے بتائیں کیا ہے سفر ہمارا
ہم بھی سفر کے ہاتھوں دو لخت ہو گئے ہیں
راہوں کو سونپ آئے ہم ہمسفر ہمارا
وحشت کے اس مکاں میں کچھ پل ہوئے تھے ہم کو
دیواریں ڈھونڈتی تھیں کچھ پل میں سر ہمارا
ہجرت کے اس جزیرے، کچھ دیر تم رکے تھے
اب تک ہرا بھرا ہے دامانِ تر ہمارا
لو ہم نے بانٹ لی ہے ساری حیات تم سے
آدھا سفر تمہارا، آدھا سفر ہمارا
کرن منتہیٰ
No comments:
Post a Comment