رنگِ عیادت
میں ہوا اسپتال میں داخل
تو عیادت کے رنگ عجب آئے
عہدِ نو کے ستم تو اب آئے
وہ عیادت کو میری جب آئے
کچھ نے بُوکے تھمائے مُرجھائے
ایک جانب سے تین ٹب آئے
تھا سرِ شام آنے کا وعدہ
رات بارہ بجے تو تب آئے
میری خاطر فواکہات لیے
شام نکلے تو نصف شب آئے
بیس احباب نے کیا انکار
دیکھیے اتفاق، سب آئے
کچھ تو بازار اسے سمجھ بیٹھے
کچھ نے سمجھا کہ وہ کلب آئے
بے تکلف تھے آنے والے سبھی
قہقہے بھی بڑے غضب آئے
پان کھائے گئے تھے جی بھر کر
پیک پاشی کے یوں سبب آئے
کچھ کی تھی گفتگو صبا رفتار
ایسے بھی تھے کہ زیرِ لب آئے
من چلوں نے دکھائی انگڑائی
مے کی جب بھی انہیں طلب آئے
ہے یہ معصوم آرزو دل میں
کاش عیادت کا ہم کو ڈھب آئے
کلیم چغتائی
No comments:
Post a Comment