مِرا درد شعروں میں ڈھلتا رہا
غم دل کا لاوا پگھلتا رہا
تِری بے وفائی سے بے فکر تھا
گِرا بھی کبھی تو سنبھلتا رہا
رہی تیز تیری جفاؤں کی آگ
میں ہر آن پہلو بدلتا رہا
تُو رہزن ہے یہ مجھ کو معلوم تھا
میں پھر بھی تِرے ساتھ چلتا رہا
لپکتی رہیں سیکڑوں بجلیاں
نشیمن مِرا یوں بھی جلتا رہا
اشرف قدسی
No comments:
Post a Comment