اشکوں کے دِیے یاد جلا دیتی ہے
رات آتی ہے اور آس بُجھا دیتی ہے
خوشیوں کے خداوند! مِری تر آنکھیں
تقدیر مجھ دُکھ کا گِلا دیتی ہے
جب تُو تھا مِرے پاس، مِرے پہلو میں
اس شب کو جُدائی بھی دُعا دیتی ہے
اتنا بھی بہت ہے کہ ہوا آنگن تک
اس جسم کی مہکار تو لا دیتی ہے
رستے تجھے پانے کی خبر دیتے تھے
منزل تجھے کھونے کا پتا دیتی ہے
ان شوخ حسیں آنکھوں کی چاہت گوہر
شاید مجھے جینے کی سزا دیتی ہے
سعید گوہر
No comments:
Post a Comment