Thursday 24 October 2024

چپ کا زیور بات کرنے کا سلیقہ بن گیا

 چپ کا زیور بات کرنے کا سلیقہ بن گیا

راز رکھتا ہی گیا پر خود تماشا بن گیا

شیشہ گر کے ہاتھ لگتے ہی وہ پتھر کا صنم

درد سے گریہ گزاروں کا مسیحا بن گیا

حجرۂ مرحوم کی مٹی بھی تھی خاکِ شفا

حجرۂ مخدوم کی مٹی سے کاسہ بن گیا

آزما رکھا ہے ہم نے تلخیوں میں یہ عصا

سر زمیں پہ جس طرف رکھا تو عقبیٰ بن گیا

ہم بھی ہو آئے مصور کے کھلے دربار سے

دل پہ اپنے جب سے وہ نقشِ کفِ پا بن گیا

آ گیا تاریک شب میں ایک انجم کا خیال

ٹوٹ کے گرتا ہوا تارا ثریا بن گیا


بلال شبیر ہادی

No comments:

Post a Comment