چپ کا زیور بات کرنے کا سلیقہ بن گیا
راز رکھتا ہی گیا پر خود تماشا بن گیا
شیشہ گر کے ہاتھ لگتے ہی وہ پتھر کا صنم
درد سے گریہ گزاروں کا مسیحا بن گیا
حجرۂ مرحوم کی مٹی بھی تھی خاکِ شفا
حجرۂ مخدوم کی مٹی سے کاسہ بن گیا
آزما رکھا ہے ہم نے تلخیوں میں یہ عصا
سر زمیں پہ جس طرف رکھا تو عقبیٰ بن گیا
ہم بھی ہو آئے مصور کے کھلے دربار سے
دل پہ اپنے جب سے وہ نقشِ کفِ پا بن گیا
آ گیا تاریک شب میں ایک انجم کا خیال
ٹوٹ کے گرتا ہوا تارا ثریا بن گیا
بلال شبیر ہادی
No comments:
Post a Comment