یہ کیسی آگ سینے میں لگی ہے
مجھے کُندن بنانا چاہتی ہے
یقیناً پک رہا ہے کوئی لاوا
اُداسی چار سُو پھیلی ہوئی ہے
ستارے بُجھ رہے ہیں رفتہ رفتہ
سحر کے ساتھ کیسی تیرگی ہے
جسے تم نے محبت سے چُھوا تھا
وہ میری شاخِ دل اب تک ہری ہے
تِری رُسوائی کب میں چاہتا تھا
مجھے تھی کیا خبر، تیری گلی ہے
تِری یادوں کی اک بے تاب تتلی
مِری آنکھوں میں آ کر سو گئی ہے
تجھے پا کر بھی کتنا مضطرب ہوں
یہ کیسی بے کلی دل کو لگی ہے
ایوب ندیم
No comments:
Post a Comment