عارفانہ کلام نعتیہ کلام
آج کی رات ضیاؤں کی ہے بارات کی رات
فضلِ نو شاہِ دو عالمﷺ کے بیانات کی رات
شبِ معراج وہ اَوحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات
چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زُلفیں
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
رِند پیتے ہیں تِری زلف کے سائے میں سدا
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
رخِ تابانِ نبیﷺ زُلف معنبر پہ فدا
روز تابندہ یہ مستی بھری برسات کی رات
دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رُخِ شہؐ کے خیالات کی رات
ہر شب ہجر لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
جس کی تنہائی میں وہ شمع شبستانی ہو
رشک صد بزم ہے اس رِند خرابات کی رات
بلبل باغِ مدینہ کو سنا دے اختر
آج کی شب ہے فرشتوں سے مباہات کی رات
اختر رضا قادری بریلوی
No comments:
Post a Comment