نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی
تو پھر یہ کیسے کہوں مجھ سے بے خبر ہے کوئی
یہ عہد کیسے کروں تجھ کو بھول جاؤں گا
کہاں یقین دل بے قرار پر ہے کوئی؟
بہت حسین شب انتظار ہے، لیکن
تمہی بتاؤ کہ اس رات کی سحر ہے کوئی
تِرے تصور رنگیں میں یوں نظر گم ہے
میں اب وہاں ہوں کسے فرصتِ نظر ہے کوئی
تِری تلاش میں کیا جانے کس مقام پہ ہوں
کہ اب نگاہ میں منزل نہ رہگزر ہے کوئی
یہ زندگی تو کوئی زندگی نہیں شبنم
یہ زندگی ہے کہ ٹوٹی ہوئی سِپر ہے کوئی
شبنم نقوی
No comments:
Post a Comment