Monday, 21 October 2024

نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی

 نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی

تو پھر یہ کیسے کہوں مجھ سے بے خبر ہے کوئی

یہ عہد کیسے کروں تجھ کو بھول جاؤں گا

کہاں یقین دل بے قرار پر ہے کوئی؟

بہت حسین شب انتظار ہے، لیکن

تمہی بتاؤ کہ اس رات کی سحر ہے کوئی

تِرے تصور رنگیں میں یوں نظر گم ہے

میں اب وہاں ہوں کسے فرصتِ نظر ہے کوئی

تِری تلاش میں کیا جانے کس مقام پہ ہوں

کہ اب نگاہ میں منزل نہ رہگزر ہے کوئی

یہ زندگی تو کوئی زندگی نہیں شبنم

یہ زندگی ہے کہ ٹوٹی ہوئی سِپر ہے کوئی


شبنم نقوی

No comments:

Post a Comment